کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ کے رہائشی سید علی آغا، ان کی اہلیہ 40 سالہ بی بی طاہرہ، چار بچے 14 سالہ سبحان، 12 سالہ سجاد، 10سالہ فاطمہ اور 5 سالہ کوثر ترکیہ کے سمندر میں یونان جاتے ہوئے کشتی الٹننے سے جاں بحق ہو گئے۔
ان کے اہلخانہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ 20 مارچ کو ترکیہ سے کسی جاننے وا لے نے ٹیلی فون پر حادثے کی اطلاع دی اور بتایا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ترکیہ میں پاکستانی سفار تخانے اور ترکیہ حکام سے رابطہ کیا میتوں کو کوئٹہ لانے کا طریقہ کار بہت مہنگا، پیچیدہ اور وقت طلب تھا، ایک میت کو کوئٹہ لانے کا خرچ کم از کم 8 ہزار ڈالر بتایا جا رہا تھا جس پر خاندان نے جا ننے والوں کو انہیں وہیں دفنانے کی اجازت دے دی۔
ان کا کہنا تھاکہ حادثے کی وجہ سے پورا خاندان کرب میں مبتلا ہے اور بوڑھے والدین صدمے میں ہیں۔
علی آغا کے بہنوئی عادل شاہ کے مطابق سید علی آغا سے ان کی بہن کا رشتہ تقریباً 15 سال قبل ہوا، شادی کے بعد میاں بیوی کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ، بے امنی اور مالی مشکلات کے با عث پاکستان چھوڑ کر ہمسایہ ملک ایران منتقل ہو گئے، وہاں سے تین چار سال قبل روزگار کی تلاش میں ترکیہ چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کا علی آغا کا خواب تھا وہ اپنے بیوی بچوں کو بہتر اور خوشحال مستقبل دے سکیں لیکن ترکیہ میں ان کی زندگی آسان نہیں تھی، وہ وہاں تعمیراتی شعبے میں یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے اور بمشکل اپنا خرچ پورا کررہے تھے۔
ترک حکام کے مطابق تارکین وطن کی کشتی شمالی ترکیہ کے قریب مارچ کے وسط میں طوفان کی زد میں آکر الٹ گئی تھی جس کے نتیجے میں افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
حکام نے علی آغا کے خاندان سمیت 23 تارکین وطن کی لاشیں نکالی ہیں۔
ترکیہ حکام کا کہنا ہے کہ کشتی پر سوار افراد کی صحیح تعداد کا علم نہیں تاہم ڈوبنے والوں کی تلاش کیلئے فضائی اور سمندری آپریشن تاحال جاری ہے۔