انسداد دہشت گردی عدالت کی سینٹرل جیل میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، اہم گواہ و عینی شاہد اپنے بیان سے منحرف ہوگیا۔
گواہ ہیڈ کانسٹیبل راجہ جہانگیر نے اپنی گواہی میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شوٹرسمیت 7 ملزموں کو شناخت کرنے سے انکار کردیا، گواہ نے بیان دیا کہ مجھ سے زبردستی بیان لیا گیا تھا، اعلیٰ حکام کے دباؤ پر پولیس کے تحریری بیان پر دستخط کئے تھے۔
گواہ کے منحرف ہونے پر پراسیکیوشن نے گواہ کا نام واپس لینے کی استدعا کی، پراسیکیوشن نے کہا کہ اہم گواہ راجہ جہانگیر نام واپس لینا چاہتا ہے، وکیل صفائی نے گواہ کا نام واپس لینے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہ کا نام واپس نہیں لیا جاسکتا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ گواہ کے بیان پر جرح کرنے کی ہدایت دی جائے، عدالت نے وکیل صفائی کی جانب سے گواہ کے بیان پر جرح سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، ملزم سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت، شعیب شوٹر، گدا حسین، صداقت حسین، ریاض احمد، راجہ شمیم اور محسن عباس کو پیش کیا گیا۔
عدالت نے تمام ملزموں کو آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 مئی تک ملتوی کردی، پراسیکویشن کے مطابق مقدمہ میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسروں و اہلکاروں کو بری کیا جاچکا ہے۔
پراسیکیوشن نے بتایا کہ مقدمہ میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت 7 پولیس افسران و اہلکار مفرور تھے، ساتوں مفرور ملزموں نے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے بعد خود کو سرینڈر کیا تھا، مقدمہ میں ایک ملزم شعیب شوٹر ضمانت جبکہ امان اللہ مروت سمیت 6 ملزمان گرفتار ہیں۔
پراسیکیوشن کے مطابق نقیب اللہ کو جنوری 2018ء میں پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔