بشکیک میں غیر ملکیوں کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد کرغزستان سے با حفاظت وطن واپس پہنچنے والے طلبا پاکستانی سفیر حسن علی صیغم کے رویے پر پھٹ پڑے۔
گزشتہ روز کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک سے 140 پاکستانی لاہور پہنچے تھے جہاں وزیر داخلہ محسن نقوی نے ان کا استقبال کیا تھا۔
لاہور پہنچنے والے طلباء نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو بتایا کہ کرغستانیوں نے جو ہمیں مارا وہ دکھ تو دل میں موجود ہے لیکن اس سے زیادہ دکھ ہمیں تب ہوا جب ہمارے کرغزستان میں تعینات پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے یہ کہا کہ یہ سب نارمل حالات ہیں۔
ایک طالبعلم نے بتایا کہ پاکستانیوں کو حسن علی ضیغم صاحب نے یہ کہا کہ یہ سب نارمل حالات ہیں، یہ ایک جھوٹ تھا۔
بشکیک میں پھنسے خوفزدہ پاکستانی طلبہ نے شکوہ کیا کہ حکومت کی جانب سے واپسی کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ، وہ خود ٹکٹ خریدنے اور واپسی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
جیو سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے بھی ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں ، سکیورٹی اہلکاروں کے گشت کے باعث کچھ علاقوں میں صورتحال بہتر ہے ، لیکن مقامی دکان دار غیر ملکی طلبہ کو سامان فروخت نہیں کررہے۔
طلبہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ واپسی کی صورت میں ان کی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوپائے گی۔
سوشل میڈیا پر جاری تازہ ویڈیوز میں طلبہ و طالبات فریاد کررہے ہیں کہ انہیں خراب حالات میں بھی ہاسٹل اور گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے ۔
دوسری جانب تیس طلبہ سمیت 140 پاکستانیوں کی بشکیک سے لاہورآمد ہوئی ہے۔
ائیر پورٹ پر وزیر داخلہ نے وطن واپس آنے والوں سے ملاقات کی ، دہشت زدہ طالب علموں سے بشکیک کے حالات پوچھے ۔
واقعہ کیا ہے؟
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں 13 مئی کو بودیونی کے ہاسٹل میں مقامی اور غیرملکی طلبہ میں لڑائی ہوئی تھی، جھگڑے میں ملوث 3 غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
کرغز میڈیا کے مطابق 17مئی کی شام چوئی کرمنجان دتکا کے علاقے میں مقامیوں نے احتجاج کیا، مقامی افراد نے جھگڑے میں ملوث غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ، بشکیک سٹی داخلی امور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نے مظاہرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق حراست میں لیے گئے غیرملکیوں نے بعد میں معافی بھی مانگی لیکن مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کیا اور وہ مزید تعداد میں جمع ہوگئے، پبلک آرڈر کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
کرغز میڈیا کے مطابق وفاقی پولیس کے سربراہ سے مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔