اسلام آباد: سائفر کیس کی اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ دستاویز ات ریکارڈ پر نہیں، یہ کرمنل کیس ہے جس میں شک کا پورا فائدہ ملزمان کو جائے گا۔
چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد شاہ سے استفسار کیا کہ سائفر کی تعریف کر دیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے؟ کیا یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا ہر سائفر ہوتا ہے؟
عدالت کو بتایا گیا کہ قانون کے مطابق ہر کوڈڈ دستاویز سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہوتا ہے، پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ سائفر ٹیلی گرام سائفر سیکشن کو واشنگٹن سے بذریعہ ای میل موصول ہوا جس پر سائفر سیکشن نے نمبر لگایا۔
سائفر سے متعلق کتاب پیش کی تو عدالت نے پراسیکوٹر سے استفسار کیا یہ کلاسیفائیڈ تو نہیں ہے ؟ جس پر عدالت نے بتایا گیا کہ اس کتاب پر نمبر لگا ہوا ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر جاری ہوئی ہے اور یہ صرف مخصوص لوگ کی دیکھ سکتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے استفسار پر عدالت کو بتایا گیا کہ کیا کوڈڈ سائفر میسج کسی اسٹیج پر انٹرسیپٹ تو نہیں ہوا؟ پراسکیوٹر حامد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ کوڈڈ سائفر کسی اسٹیج پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا۔
عدالت نے کہا کہ آپ بتا رہے ہیں سائفر کو گریڈ کیسے کیا جا سکتا ہے یہ بھی بتانا ہے قانونی کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ؟ ایف آئی اے پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس کے متن کے بارے میں گواہ نے کچھ کہا ہے تو بتایا گیا کہ اس حوالے سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ پورا کیس اس دستاویز کے اردگرد کھڑا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان نے ان دونوں کو یہ بات بتائی تھی کہ اس ڈاکومنٹ کی حساسیت کیا ہے ؟ کیونکہ دونوں ملزمان نے اس دستاویز کو رٹا ہوا تو نہیں ہے بعض اوقات آپ کو نہیں پتہ ہوتا آپ نے ان کو کیسے ڈیل کرنا ہوتا ہے۔
اس پر اسکیوٹر نے کہا کہ ہر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے اوپر لکھا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اوپر والا تو ہمارے پاس ہے نہیں ، کیونکہ ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہے ہی نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ کرمنل کیس ہے اس میں شک کا فائدہ انہیں جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔