قومی اسمبلی کے کل ہونے والے اجلاس میں آئینی پیکج اور چیف جسٹس کو توسیع دینے کے لیے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کی افواہیں گرم ہیں جہاں حکومت نے ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کل دوپہر تین بجے طلب کیا گیا جس میں آئینی پیکج اور ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
حکومتی ذرائع نے آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تاہم آئنی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کی راہداری میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پیش کریں گے اور ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب وزیر قانون نے کل کوئی بھی آئینی ترمیم نہ لانے کا دعویٰ کردیا جبکہ نائب وزیر اعظم نے بھی اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کردیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں وزیر قانون نے کہاکہ حکومت کل کوئی آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔
آئینی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فی الحال جو اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کا مسئلہ پڑا ہوا ہے اس پربات چیت ہورہی ہے۔
اس بارے میں جب نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں۔
اس بارے میں جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ججوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو پھر یہ کسی ایک جماعت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی طے کرے گی کہ اس حوالے سے کیا کرنا ہے۔
تاہم اہم حکومتی اراکین کی تردید کے باوجود باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ججز کی مدت ملازت میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم پیش کی جائے گی اور اس حوالے سے حکومت کے نمبر بھی پورے ہیں۔
البتہ اس سلسلے میں غور طلب بات یہ ہے کہ کل ہونے والے اجلاس کے لیے جاری ایجنڈے میں آئینی ترمیم اور قانون سازی سے متعلق کوئی ایجنڈہ شامل نہیں ہے۔
ہفتے کو خصوصی اجلاس بلا کر جمعے کے روز والا ایجنڈہ ہی جاری کیا گیا ہے جہاں ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل ہے جبکہ اس کے علاوہ ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔