(اسلام آباد)پاکستان ایک لائرز فورم فار جوڈیشل ریفارمزکے چیئرمین ارسلان ایاز ایڈووکیٹ نے جوڈیشل ریفارمز کی حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان اور وقت کی ضرورت قرار دیا ہے،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں سعد شبیر ستی ایڈووکیٹ اور سردار سکندر ایڈووکیٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالتوںکا قیام عدالتی نظام میں بہتری کی جانب ایک اچھی کاوش ہے، یہ خوش آئند امر ہے کہ آئین پاکستان کےدائرے میںرہتے ہوئے جوڈیشل ریفارمز پر کام ہو رہا ہے،آئینی عدالتوں کے قیام کا مجوزہ فیصلہ عدالتی نظام کی مضبوطی کا باعث بنے گا جس کا خیر مقدم کرتے ہیں،یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 239 کے مطابق قانونی ہیں،دنیا کے 69سے زائدممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں،آئینی عدالتیں سپریم کورٹ کے علاوہ کام کرتی ہیں اور انکے ججز پارلیمانی عمل کے ذریعے فکس مدت کیلئےلگائے جاتے ہیں،1973ء کے آئین میں اب تک 25 ترامیم کی جا چکی ہیں جن میں سے کوئی بھی آئین سے متصادم نہیں ہے،مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 63-51-17-48مجوزہ آئینی عدالتیں آرٹیکل 184 اور 186 کے متعلقہ کمیسز دیکھیں گی،آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ 2006 سے چل رہا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ یہ نظریہ ضرورت نہیں بلکہ ماضی میں بھی جو ڈیشل ریفار مر کی ضروت محسوس کی جاتی رہی ہے،اس وقت سپریم کورٹ میں 55 ہزار کیسیز زیرالتواء پڑے ہوئے ہیں آئینی عدالتوں کے قیام سے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ پر بوجھ کم ہوگا،مجوزہ آئینی عدالتیں اسلام آباد کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی قائم کی جائینگی، ان عدالتوں میں 40 فیصد ججز سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء میں سے لئے جائینگے، جس پر ہماری تجویز ہے کہ اسکے لئے مقابلے کا امتحان ہونا چاہیئےجس کے بعد بہترین اور قابل قانوندان چنے جائیں، ہائیکورٹ کے ججز کی ٹرانسفر کے لئے آرٹیکل 200 میں ترمیم کی جاسکتی ہے جو اچھا اقدام ہے جسکوججز کی کار کردگی سےمنسلک کیا جائے اور ایسا کرنے سے نظام میںبہتری لائی جا سکتی ہے۔
Keep Reading
Add A Comment