کراچی:غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر آگیا، 2022 تک پاکستان غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے 10 سرفہرست مملک میں شامل نہیں تھا۔غیر قانونی ترک وطن کے بارے میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق 2021 سے اکتوبر 2022 کے دوران غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق معاشی مشکلات، روزگار کی کمی اور مہنگائی کے سبب پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ 2023 کے وسط تک پاکستان پانچواں بڑا ملک بن گیا، دسمبر 2023 تک 8778 افراد غیر قانونی طور پر یورپ گئے۔
سیاسی بے یقینی، دہشت گردی، مہنگائی، تعلیم کے مواقع کم ہونا اور روزگار کی کمی بھی غیر قانونی ہجرت کے اسباب ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں سے غیر قانونی ہجرت کا رجحان زیادہ ہے۔پاکستانی دبئی، مصر اور لیبیا کے ذریعے یورپ جانے والا نیا راستہ استعمال کر رہے ہیں، اس راستے سے 2023 کی پہلی ششماہی میں 13 ہزار پاکستانی یورپ پہنچے اور 10 ہزار افراد واپس نہیں لوٹے۔این سی ایچ آر نے اپنی سفارشات میں کہا کہ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے آپریشنل اور پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے، جن علاقوں سے غیر قانونی ہجرت کا رجحان زیادہ ہے وہاں آگاہی پھیلانی ہوگی۔انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ڈسٹرکٹ کی سطح پر انٹلی جنس یونٹس کی تشکیل کی جائے، غیر قانونی ہجرت روکنے کے لیے قانونی چینلز بنائے جائیں اور ورکرز کو تربیت دے کر باصلاحیت بنایا جائے، انسانی سرمایہ کی تشکیل میں سرمایہ کاری کی جائے اور اسٹیک ہولڈرز کے مابین اشتراک عمل کو مضبوط بناتے ہوئے مرکزی ڈیٹا بیس بنائی جائے۔
سفارشات میں مزید کہا گیا کہ مقامی سطح پر ترقی کے عمل کو ممکن بناکر سیکٹر مخصوص پروگرامز چلائے جائیں، انسانی اسمگلنگ کے تدارک کے لیے قومی اداروں اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کو مؤثر بنایا جائے۔
سال 2022 کے پہلے دس ماہ کے دوران غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں 280 فیصد اضافہ ہوا۔ ترکی سے غیر قانونی ہجرت میں 208 فیصد، مصر سے 179 فیصد، افغانستان سے 165 فیصد، شام سے 122 فیصد، بنگلا دیش سے 92 فیصد اضافہ ہوا اور تیونس 59 فیصد اضافے سے 7ویں نمبر پر رہا جبکہ غیر قانونی طور پر یورپ جانے والی قومیتوں میں شام 42.7 فیصد تناسب کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔این سی ایچ آر رپورٹ کے مطابق افغانستان کا تناسب 16.4 فیصد، تیونس 12.1 فیصد، مصر 9.6 فیصد، بنگلا دیش 8 فیصد، ترکی 5.7 فیصد اور پاکستانیوں کا تناسب 5.5 فیصد ہے۔سال 2022 میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے 46 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو فضائی راستے سے ڈی پورٹ کیا گیا جبکہ 2023 میں اگست تک 25 ہزار سے زائد افراد کو فضائی راستے سے ڈی پورٹ کیا گیا۔اسی طرح، 2022 میں زمینی راستے سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد 5676 اور 2023 اگست تک 3150 رہی جبکہ 2022 میں 19055 افراد کو آف لوڈ کیا گیا اور 2023 اگست تک یہ تعداد 10366 تک پہنچ گئی۔جون 2023 میں یونان جانے والی غیر قانونی مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے 350 پاکستانیوں کی ہلاکت ہوئی اور اس واقع کے بعد ایف آئی اے کی انفورسمنٹ اور انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائیوں میں شدت آگئی۔ایف آئی اے کی انسانی اسمگلرز کے خلاف مہم کے دوران 2023 میں 189 ایف آئی آر درج کی گئیں اور 854 افراد کو گرفتار کیا گیا۔جولائی 2023 تک ملک میں 378 غیر قانونی ایجنٹس کی نشاندہی کی گئی۔ گجرات، گجرنوالہ، منڈی بہاؤ الدین اور سیالکوٹ یورپ کو غیر قانونی ہجرت کے لحاظ سے نمایاں ہیں جبکہ یہ اضلاع قانونی طور پر یورپ جانے والے خطوں میں بھی سرفہرست ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں سے 40 فیصد شہری پاکستان چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور دیہی علاقوں میں یہ تناسب 36 فیصد ہے۔
معاشی مشکلات، روزگار کی کمی، سیاسی بے یقینی اور دیگر وجوہات کی بناء پر ملک چھوڑنے کی خواہش رکھنے والوں میں بلوچستان اور آزاد کشمیر 42 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہیں۔پنجاب سے 35.8 فیصد شہری وطن چھوڑنا چاہتے ہیں، کے پی میں یہ تناسب 38 فیصد، سندھ میں 37.6 فیصد، اسلام آباد میں 36.5 فیصد اور گلگت بلتستان میں 42 فیصد ہے۔چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جوہری آغا کا کہنا ہے کہ غیر قانونی راستوں میں شدید مشکلات پریشانی اور جان کے خطرے کے باوجود پاکستان سے غیر قانونی ہجرت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، این سی ایچ آر ملائیشیا میں قید پاکستانیوں کو وطن لانے کے لیے متحرک ہے جبکہ غیر قانونی ہجرت سے متاثرہ پاکستانیوں کو قونصلر معاونت فراہم کی جارہی ہے۔