اسلام آباد:بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر اسلام آباد کی جانب مارچ اور ڈی چوک پر احتجاج کے لیے وزیراعلیٰ کے پی کی قیادت میں قافلہ صوابی پہنچ گیا جبکہ بشریٰ بی بی بھی قافلے میں شامل ہیں۔فیصل جاوید کنٹینر سے اسلام آباد روانگی کا اعلان کریں گے۔بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ ہم ورکر سے اس کی فیملی کی شمولیت کی توقع رکھتے ہیں تو خان کی فیملی سب سے پہلے اس مارچ کا حصہ ہوگی، خان کے دیے گئے اہداف کامیابی سے حاصل کریں گے۔شیخ وقاص کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی ورکر کے شانہ بشانہ عمران خان کے دیے گئے اہداف کے حصول کے لیے اسلام آباد جا رہی ہیں، کر کو اس وقت اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔فیض آباد انٹرچینج کے قریب پہنچنے والی چند افراد کی ٹولی کو پولیس نے منتشر کر دیا جبکہ پولیس کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر جمع ہونے والے سوہان کی جانب بھاگ پڑے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے فیض آباد پل کے قریب وفاقی پولیس کی شیلنگ بھی شروع ہوگئی۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنوں نے فیض آباد میں پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا اور اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کی وجہ سے شرپسند عناصر اپنے مقاصد میں تاحال ناکام رہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی کارکن کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کارکنوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔پولیسں نے 26 نمبر چونگی پر جمع ہونے والے مزید 9 افراد کو تحویل میں لے لیا جس کے بعد حراست میں لیے جانے والوں کی تعداد 20 ہوگئی۔ڈیرہ اسماعیل خان میں عیسیٰ خیل انٹر چینج پر پولیس نے کارکنوں پر شیلنگ کی جس کے بعد پی ٹی ٓائی کے کارکن پولیس پر ٹوٹ پڑے۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے چیف وہیپ عامر ڈوگر اور رہنما زین قریشی کو پنجاب پولیس نے گرفتار کرلیا۔ دونوں رہنماؤں کو قادرپوراں ٹول پلازہ ملتان سے حراست میں لیا گیا ہے۔صوابی سے موٹروے ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند ہے۔ دریائے سندھ صوابی کے مقام پر کنٹینر رکھ کر پل کو بند کر دیا گیا ہے اور پنجاب پولیس کی بھاری نفری صوابی پل کی دوسری طرف موجود ہے۔ پی ٹی آئی قافلے کا پہلا معرکہ صوابی پل پر ہوگا۔بانی تحریک انصاف کی ہدایت اور کال کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے آج کے احتجاج کو فیصلہ کن قرار دیا اور عوام سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے قافلے صوابی پہنچیں گے اور پھر مرکزی قافلے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب چل پڑیں گے۔گزشتہ روز، علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ عمران خان کی رہائی سمیت تمام مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک پر بیٹھیں گے۔ وزیراعلیٰ کے ترجمان کے مطابق کتنی ہی سڑکیں بلاک کی جائیں یا پھر کنٹینر لگائی جائیں، اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کریں گے اور مطالبات منوائیں گے، راستے کھولنے کیلیے سرکاری نہیں بلکہ پرائیوٹ مشینری ساتھ لے کر جائیں گے۔پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا کہ 12 گھنٹے لگیں یا 100 گھنٹے، ہر صورت میں ڈی چوک پہنچیں گے، حکومت سڑکیں کھودے یا کنٹینر لگائے جہاں راستہ بند ہوگا دھرنا وہیں پر شروع کردیں گے۔اُدھر وفاقی حکومت نے واضح کیا ہے کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں اسلام آباد میں کسی کو بھی احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری احکامات کے بارے میں بتاتے ہوئے آگاہ کیا کہ حکومت عدالتی حکم پر ہر صورت عمل کرے گی۔وزیر داخلہ نے پی ٹی آئی چیئرمین کو آگاہ کیا کہ بیلا روس کے صدر اور 80 رکنی اعلیٰ سطح کا وفد 24 نومبر سے تین روز کیلیے پاکستان کا دورہ کررہا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے احتجاج مؤخر کرنے کے حوالے سے پارٹی قائدین سے مشاورت کا وقت مانگا تھا۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے پولیس لائنز میں جوانوں سے خطاب میں کہا تھا کہ اس بار قانون ہاتھ میں لینے والوں کو چھوڑنا نہیں اور امن و امان خراب کرنے والے ہر شخص کو گرفتار کرنا ہے۔دریں اثنا نیکٹا نے تحریک انصاف کے احتجاج میں دہشت گردی کا الرٹ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ فتنہ الخوارج کے دہشت گرد پی ٹی آئی احتجاج کو نشانہ بنانے کیلیے 19 اور 20 نومبر کی شب پاک افغان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے جن کا مقصد دہشت گردی کرنا ہے۔خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ نے بھی اسلام آباد احتجاج میں خود کش حملے کا تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے تمام اداروں کو اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر موٹر ویز، ہائی ویز اور اسلام آباد جانے والے راستوں کو سیل کردیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد کے داخلی راستوں کو بند اور مری روڈ کو کھود دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور سے اسلام آباد اور پشاور سے دارالحکومت جانے والے موٹرویز کو بھی بند جبکہ پولیس اور ایف سی نفری کو کے پی اور پنجاب کے سنگم میں تعینات کردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جہلم، فیصل آباد، لاہور بابو صابو، شرقپور انٹرچینج، شاہدرہ راوی پُل سے لاہور میں داخل ہونے والی سڑک کو بھی بند کردیا گیا ہے جبکہ جڑاوں شہروں میں میٹرو بس سروس مکمل اور لاہور میں جزوی بند کردی گئی ہے۔حکومت نے سیکیورٹی خدشات والے علاقوں میں موبائل ڈیٹا سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مظاہرین کو روکنے کیلیے اسلام آباد میں ایف سی سمیت دیگر صوبوں سے 30 ہزار پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔اسلام آباد میں پولیس نے احتجاج سے قبل پہنچنے والے پی ٹی آئی کے 300 سے زائد کارکنان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ راولپنڈی میں بھی پولیس تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاریوں کیلیے متحرک ہے۔اس کے علاوہ پی ٹی آئی پنجاب کے نائب صدر کو گرفتار اور دیگر کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے ہیں۔