پشاور:خیبرپختونخوا (کے پی) اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عباداللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے رکن کابینہ کے ہاتھ میں آنسو گیس کی وہ گن تھی جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔کے پی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹرعباد اللہ نے کہا کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی ہے کہ پہلے دن سے اس ایوان میں رونا دھونا شروع ہوگیا ہے۔پی ٹی آئی کے احتجاج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف ہے کہ کسی بھی سیاسی کارکن پر گولی نہیں چلانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ارکان اداروں پر تنقید کررہے ہیں تو کیا بیرسٹر گوہر آپ کا چیئرمین نہیں ہے کیونکہ بیرسٹر گوہر نے کل کہا ہے کہ سانحہ ڈی چوک میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی قصور نہیں ہے، اب ہم آپ کی بات مانیں یا بیرسٹر گوہر کی۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ کارکنوں کو کہا گیا کہ ہم جہاد کے لیے جارہے ہیں، ویڈیو میں کابینہ رکن کے ہاتھ میں آنسو گیس گن نظر آرہی ہے اوروہ گن پاکستان میں دستیاب ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سینکڑوں اراکین پارلیمنٹ میں سے کسی کو خراش تک نہیں آئی، اراکین اسمبلی نہ تو اپنے کارکن کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اپنے قائد کے ساتھ۔ان کا کہنا تھا کہ بجلی بند کرکے کارکنوں کو ڈی چوک میں چھوڑ کر خود نکل آئے، مجھے 100 فیصد پتا ہے کہ وزیراعلی نہ بندوق لے کر جائیں گے نہ گولی چلائیں گے۔عباداللہ نے کہا کہ اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی سب سے زیادہ ملا ہوا ہے تو وہ وزیراعلی کے پی ہیں، گالیاں دینا سب سے آسان کام ہے، ہماری جماعت میں جو گالی دیتا ہے وہ بھی غلط کرتا ہے، پی ٹی آئی نے پختون ثقافت اور روایات کو تباہ کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں صوبائی حکومت کے لیے وفاق سے کچھ مانگا ہے، ہم تو صوبائی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں لیکن جب حکومت کام نہیں کرے گی تو کسی کو تو آگے آنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے یہ صوبہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے، وزرا کو گالیوں کے بجائے اپنی نو ماہ کی کارکردگی پر بات کرنی چاہیے، جب خود فیضیاب ہورہے تھے اس وقت اسٹیبلشمنٹ زبردست تھی۔قائد حزب اختلاف کا کہان تھا کہ کیا یہ قیامت کی نشانی نہیں کہ کوئی کہے کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب سے حکومت بنی ہے بس چلو چلو کی کال ہی دی جا رہی ہے، کیا چلو چلو کہ آپ کو روزگار دیں کا نعرہ نہیں لگ سکتا اور اس صوبے میں 95 فیصد حصہ پر حکومت کی رٹ ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 21نومبر کو سانحہ کرم پیش کیا جبکہ مارچ 24 نومبر کو تھا، 72 گھنٹوں تک وزیراعلیٰ کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس سانحے کو دیکھتے۔مسلم لیگ (ن) کے رکن اور قائد حزب اختلاف عباداللہ نے کہا کہ صوبے کے گورنر، وزیراعلی اور آئی جی کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے، ڈی ائی خان میں کل سرکاری ملازمین کو کہا گیا ہے کہ مغرب کے بعد باہر نہ نکلیں۔