فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کی سرپرست کمپنی میٹا سے اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں عربی لفظ شہید کے استعمال پر عائد پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ مطالبہ میٹا کے قائم کردہ نگران بورڈ کی جانب سے کیا گیا ہے۔
میٹا کا اوور سائیٹ بورڈ خودمختار کام کرتا ہے اور اس کی جانب سے جاری ایڈوائزری بیان میں کہا گیا کہ شہید لفظ پر پابندی سے لاکھوں صارفین کے آزادی اظہار رائے کو غیر ضروری طور پر دبایا جارہا ہے۔
بورڈ کی جانب سے کہا گیا کہ میٹا کی موجودہ پالیسی غیر ضروری ہے اور لفظ کے استعمال پر پابندی کو ختم کیا جانا چاہیے۔
نگران بورڈ کے مطابق لفظ شہید پرمشتمل پوسٹ کو صرف اس صورت ہٹانا چاہیے جب وہ تشدد کی واضح علامات سے منسلک ہو۔
میٹا پر برسوں سے مشرق وسطیٰ میں صارفین کے مواد کی پالیسی کے باعث تنقید کی جا رہی ہے اور کمپنی کی 2021 کی اپنی تحقیق میں تسلیم کیا گیا تھا کہ اس کے طریقہ کار سے فلسطینی اور دیگر عربی بولنے والے صارفین کے انسانی حقوق پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
2020 میں میٹا نے لفظ شہید پر پابندی کی پالیسی کا جائزہ لیا تھا۔
اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہونے پر گزشتہ سال بورڈ سے معاملے میں مداخلت کی درخواست کی گئی تھی۔
بورڈ کی شریک چیئرپرسن Helle Thorning-Schmidt نے کہا کہ میٹا کی جانب سے اس تصور کے تحت کام کیا جا رہا ہے کہ لفظ کو سنسر کرنے سے صارفین کو زیادہ تحفظ ملے گا، مگر شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ سنسر شپ سے آبادی کا استحصال ہوا ہے۔
دوسری جانب میٹا کے ایک ترجمان نے کہا کہ کمپنی بورڈ کی طرف سے فراہم کردہ فیڈ بیک کا جائزہ لے کر 60 دنوں کے اندر جواب جمع کرائے گی۔
اکتوبر میں اسرائیل،حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے میٹا کو شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اس کی جانب سے فیس بک اور انسٹا گرام پر متعدد ایسی پوسٹس کو ہٹا دیا گیا جن میں شہید لفظ کا استعمال ہوا تھا۔