پلاسٹک کے ننھے ذرات ہر جگہ موجود ہیں یعنی خوراک، پانی اور ہوا، وہ ہر جگہ موجود ہیں۔
درحقیقت ایک تخمینے کے مطابق ہم ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کے حجم کے برابر ذرات ہضم کر جاتے ہیں، مگر اس سے ہمارے جسم کے اندر کیا ہوتا ہے؟
اس بات کا جواب امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دیا گیا ہے۔
نیو میکسیکو یونیورسٹی کی تحقیق میں چوہوں پر تجربات کے دوران اس سوال کا جواب حاصل کیا گیا۔
تحقیق میں چوہوں کو پانی کے ذریعے پلاسٹک کے ذرات کا استعمال کرایا گیا۔
4 ہفتوں بعد دریافت ہوا کہ یہ ذرات چوہوں کے معدے سے گزر کر جگر، گردوں اور جسم کے دیگر حصوں جیسے دماغی ٹشوز تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے پلاسٹک کے ذرات کو پانی پلانے کے بعد مخصوص ٹشوز میں دریافت کیا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ذرات آنتوں کی رکاوٹ عبور کر جاتے ہیں اور جسم کے دیگر حصوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
انہوں نے ایسے شواہد بھی دریافت کیے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات متاثرہ ٹشوز کے میٹابولزم تک پہنچ جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ یہ اثرات محض 4 ہفتوں میں نظر آنے لگتے ہیں اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ پیدائش سے بڑھاپے تک انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔
ان کی جانب سے تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ جسم میں غذا سے کس حد تک پلاسٹک کے ننھے ذرات کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق ہر فرد کی غذا مختلف ہوتی ہے اور ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کس طرح کی غذا سے ذرات کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہیں توقع ہے کہ اس سے معلوم ہوسکے گا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کس طرح انسانی جسم پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل Environmental Health Perspectives میں شائع ہوئے۔
اب تک پلاسٹک کے ننھے ذرات کو انسانی دل، شریانوں، مادر رحم اور دیگر حصوں میں دریافت کیا جا چکا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں پلاسٹک سے بچنا ممکن نہیں، کیونکہ ہمارے اردگرد موجود بیشتر مصنوعات پلاسٹک سے بنتی ہیں یا ان پر پلاسٹک پیکنگ ہوتی ہے۔
ان مصنوعات سے پلاسٹک کے بہت چھوٹے ذرات کا اخراج ہوتا ہے جو جسم کے اندر جاسکتے ہیں۔
درحقیقت اس طرح کے ذرات کو انٹار کٹیکا کی تازہ برف سمیت ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے لے کر سمندر کی گہرائیوں میں بھی دریافت کیا جاچکا ہے۔