امریکا میں محض ایک ہفتے کے اندر قومی سلامتی پیکج کو قانون کی شکل دے دی گئی ہے جس میں وہ بل بھی شامل ہے جس کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جائے گی۔
پہلے ایوان نمائندگان کانگریس نے 20 اپریل اور پھر سینیٹ نے 24 اپریل کو ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی۔
اب امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس قانون کے تحت ٹک ٹاک کی سرپرست کمپنی بائیٹ ڈانس کو 2 آپشنز دیے گئے ہیں۔
بائیٹ ڈانس کو امریکا میں ٹک ٹاک کو پابندی سے بچانے کے لیے اسے آئندہ 9 ماہ تک کسی امریکی کمپنی کو فروخت ہوگا (امریکی صدر اس مدت کو کسی پیشرفت ہونے پر 12 ماہ تک بڑھا سکتے ہیں) یا پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو پابندی کا سامنا ہوگا۔
خیال رہے کہ ٹک ٹاک کے دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد صارفین ہیں اور امریکا اس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
17 کروڑ سے زائد امریکی شہری ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی کی جانب سے امریکی قانون پر باضابطہ ردعمل جاری کیا گیا ہے۔
ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں ٹک ٹاک کی جانب سے اس پابندی کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔
کمپنی کے مطابق ٹک ٹاک پر پابندی کے غیر آئینی قانون کو ہماری جانب سے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہمارا ماننا ہے کہ حقائق اور قانون واضح طور پر ہمارے حق میں ہیں۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے پلیٹ فارم پر امریکی ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہ پابندی 70 لاکھ کاروباری اداروں کے لیے تباہ کن جبکہ 17 کروڑ امریکی شہریوں کو خاموش کرانے کے لیے ہے۔
ٹک ٹاک پہلے بھی امریکا میں ریاستی سطح پر ٹک ٹاک کے خلاف پابندی کے خلاف عدالتوں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
2023 میں ایک فیڈرل عدالت نے ریاست مونٹانا میں ٹک ٹاک پر پابندی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صارفین کے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
امریکا کی جانب سے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ کمپنی کی جانب سے برسوں سے امریکی حکومت کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ مقبول ایپ امریکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں۔