ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہےکہ پاک بھارتی تجارتی پالیسی کی تبدیلی سے متعلق فی الحال کوئی خبرنہیں اور کسی فرد کوبھارت سے تعلقات کیلئے کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کےدوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ایران سربراہان کی ملاقات میں علاقائی امورزیربحث آئے، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ مضبوط تعلقات ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ ایرانی صدرکے دورے میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا معاملہ زیر غور آیا، ہمارے مشترکہ اعلامیے میں بھی اس بات کی عکاسی کی گئی، پاکستان اور ایران نے توانائی وبجلی کےحوالے سے امورپربھی غورکیا، ہم نے امریکاکا بیان دیکھا، اپنی توانائی کی ضروریات پر امریکا سے رابطے میں ہیں، پاکستان کی توانائی کی اپنی اہم ضروریات ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی پر تعاون موجودہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کی عالمی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، غزہ میں جاری نسل کشی کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔
ترجمان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف 28 اپریل کو سعودی عرب کا دورہ کریں گے، وزیراعظم اور وزیرخارجہ ریاض میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کریں گے جب کہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر وزیراعظم کی دیگر عالمی سربراہان سے بھی ملاقات ہوگی، وزیراعظم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کریں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے، پاکستان اور ایران کا کشمیر اور غزہ پر یکساں موقف ہے، بھارت کی طرف سے کشمیر پر قبضے کے بیانات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، بھارت کو ابہام پھیلانے کی بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرانا چاہیے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان امریکا کی طرف سے جاری انسانی حقوق رپورٹ کو مستردکرچکا ہے، بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اس رپورٹ کی تیاری میں موزوں طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بیلیسٹک میزائل پرزہ جات کی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں سے متعلق ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو حالیہ اقدام پراپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایکسپورٹ کنٹرول سیاسی ہوچکی ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ پاک بھارت تجارت کے لیے بیک ڈورمذاکرات نہیں ہورہے، پاک بھارت تجارتی پالیسی تبدیلی سے متعلق فی الحال کوئی خبرنہیں اور کسی فرد کوبھارت سے تعلقات کیلئے کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔