ٹک ٹاک نے اس امریکی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا ہے جس کے تحت مقبول ایپ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ پہلے ایوان نمائندگان کانگریس نے 20 اپریل اور پھر سینیٹ نے 24 اپریل کو ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی۔
جس کے بعد 24 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بل پر دستخط کیے جس کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
اس قانون کے تحت ٹک ٹاک کی سرپرست کمپنی بائیٹ ڈانس کو 2 آپشنز دیے گئے ہیں۔
بائیٹ ڈانس کو امریکا میں ٹک ٹاک کو پابندی سے بچانے کے لیے اسے آئندہ 9 ماہ تک کسی امریکی کمپنی کو فروخت ہوگا (امریکی صدر اس مدت کو کسی پیشرفت ہونے پر 12 ماہ تک بڑھا سکتے ہیں) یا پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو پابندی کا سامنا ہوگا۔
اب سوشل میڈیا کمپنی نے اس قانون کے خلاف امریکی عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
ٹک ٹاک اور اس کی سرپرست کمپنی بائیٹ ڈانس کی جانب سے دائر درخواست میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے امریکی شہریوں کے اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ امریکی حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے غیر آئینی طریقہ کار کو اپنایا۔
درخواست کے مطابق تاریخ میں پہلی بار کانگریس کی جانب سے ایک قانون کی منظوری دی گئی جس کے تحت صرف ایک پلیٹ فارم پر ملک گیر مستقل پابندی عائد کی جائے گی جبکہ ہر امریکی شہری کو ایک منفرد آن لائن پلیٹ فارم کا حصہ بننے سے روکا جائے گا۔
بائیٹ ڈانس نے اپنی درخواست میں کہا کہ قانون کے تحت دیے گئے وقت میں ٹک ٹاک کی فروخت قانونی طور پر ممکن ہی نہیں اور کمپنی کو غیر منصفانہ طور پر ایسے قانون کا ہدف بنایاگیا جو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ قانون کے تحت 19 جنوری 2025 کو ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی جائے گی، جسے 17 کروڑ امریکی شہری استعمال کرتے ہیں۔
درخواست کے مطابق کمپنی نے امریکی صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے 2 ارب ڈالرز خرچ کیے ہیں اور اس کے لیے امریکی حکومت کے ساتھ نیشنل سکیورٹی نامی معاہدہ بھی کیا گیا۔
ٹک ٹاک پہلے بھی امریکا میں ریاستی سطح پر ٹک ٹاک کے خلاف پابندی کے خلاف عدالتوں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
2023 میں ایک فیڈرل عدالت نے ریاست مونٹانا میں ٹک ٹاک پر پابندی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صارفین کے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔